حدیث نبویﷺ کےذریعےخواب تعبیرکرنےکی مثالیں

احادیث مبارکہ میں خوابوں کی تعبیر کے حوالے سے مندرجہ ذیل مثالیں ہیں

  • کوے سے فاسق و فاجر ” مراد لیا جائے ۔
    کیونکہ نبی کریم ﷺ نے کوے کو فاسق کہا ہے۔
  • چوہیا سے مراد: ” فاسق عورت ہے۔ نبی کریم ﷺ نے چو ہیا کو فاسق کہا ہے۔
  • پسلیوں اور شیشے کے برتنوں سے بھی عورتیں مراد لی جائیں۔ کیونکہ آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ : ” عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا ہے۔“
    اسی طرح آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
    اے انجثہ ذرا تھم جاؤ۔ ان شیشے کے برتنوں سے نرم روی اختیار کرو۔”
    (یہ دونوں احادیث بخاری ومسلم نے ذکر کی ہیں۔)
  • قمیص کی تعبیر مذہب پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ کی جائے گی ۔
    آپ ﷺ کا فرمان ہے:
    میں نے اپنے سامنے پیش کردہ لوگوں پر نگاہ ڈالی ، تو ان میں سے کچھ لوگوں کے قمیص سینے تک تھے اور کچھ لوگوں کے قمیص اس سے نیچے تھے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ کو سامنے لایا گیا، تو وہ اتنا لمبا قمیض پہنے ہوئے تھے کہ وہ زمین پر گھسٹ رہا تھا۔ صحابہ کرام بھی کریم نے پوچھا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! آپ ﷺ نے اس کی کیا تعبیر کی ؟”
    آپ ﷺ نے فرمایا: ” ( اس سے مراد ) دین ہے۔ “
  • نبی کریم ﷺ نے دودھ کی تعبیر علم کے ساتھ کی ہے۔
    اس طرح حدیث اسراء کے پیش نظر اس کی تعبیر فطرت اسلام سے کی جاسکتی ہے۔
  • سیاہ فام بکھرے ہوئے بالوں والی عورت کی تعبیر و با ” سے کی جائے گی۔
    آپ ﷺ نےفرمایا کہ:
    میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ بکھرے ہوئے بالوں والی ایک سیاہ فام عورت مدینہ منورہ سے باہر نکل کر جحفہ میں چلی گئی ہے۔ میں نے اس کی یہ تعبیر کی ہے که و با مدینہ منورہ سے باہر نکل کر وہاں منتقل ہوگئی ہے۔
  • بارش سے ہدایت اور علم مراد لیا جائے
    آپ ﷺ کا یہ فرمان ہے: جو علم و ہدایت عطا کر کے اللہ تعالی نے مجھے مبعوث فرمایا ہے۔ اس کی مثال ایک بارش کی مانند ہے۔
  • سیدھے راستے کی تعبیر ” اسلام ” ہے۔ اس کے دائیں بائیں حفاظتی دیوار میں اللہ تعالی کی حدود ہیں اور ان دیواروں میں لگے ہوئے دروازے اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزیں ہیں
    جیسا کہ حضرت بن سمعان رضی اللہ کی روایت میں ہے کہ؛
    اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم کو بطور مثال بیان کیا ہے، اس کے دونوں طرف دو دیواریں ہیں۔ ان دیواروں میں کھلے ہوئے دروازے ہیں۔ ان دروازوں پر پردے لٹکے ہوئے ہیں۔ اس راستے کے دروازے پر ایک آواز دینے والا موجود ہے۔
  • گھر کی تعبیر جنت ہے۔
  • دستر خوان کی تعبیر” اسلام ” ہے۔ اس کی طرف دعوت دینے والے حضرت محمد ﷺ ہیں ۔ جو شخص دعوت قبول کر کے گھر میں داخل ہو گیا، ایسا خواب دیکھنے والے کے لیے جنت کی بشارت ہے۔
    جیسا کہ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ: ” کچھ فرشتے نبی کریم ﷺ کے پاس آئے ، جبکہ آپ ﷺ محو خواب تھے۔ فرشتوں نے کہا: اس شخص کی مثال ایسے ہے، جیسے کسی شخص نے ایک گھر تعمیر کر کے اس میں دسترخوان لگا دیا اور ایک دعوت دینے والے کو لوگوں کی طرف بھیج دیا۔ جس نے اس کی دعوت کو قبول کر لیا وہ گھر میں داخل ہو گیا اور اس نے دستر خوان سے کھا بھی لیا اور جس نے اس کی دعوت کو قبول نہیں کیا وہ نہ تو گھر میں داخل ہوا اور نہ ہی اس نے دستر خوان سے کچھ کھایا
  • اونٹوں کی تعبیر “عزت” سے
    بکریوں کی تعبیر برکت سے
    گھوڑوں تعبیر کی خیر و بھلائی سے کی جاتی ہے۔
    سنن ابن ماجہ میں حدیث ہے کہ: اونٹ مالکوں کے لیے باعث عزت ہوتے ہیں، بکریاں باعث برکت ہیں اور قیامت تک کے لیے گھوڑوں کی پیشانیوں میں بھلائی مرکوز کر دی گئی ہے۔”
  • قے چاٹنے والے کتے کی تعبیر تحفہ دے کر واپس لینے والے شخص کے ساتھ کی جائے گی۔
    جیسا کہ صحیح حدیث میں بیان ہوا ہے کہ : تحفہ دے کر واپس لینے والا قے کر کے چاٹنے والے کتے کی طرح ہوتا ہے۔“
  • مالٹے کی تعبیر” قرآن مجید تلاوت کرنے والے باعمل مؤمن کے ساتھ
    کھجور کی قرآن مجید نہ پڑھنے والے مومن کے ساتھ کے ساتھ کی جائے گی۔
    آپ ﷺ کا فرمان ہے: “
    جو مومن قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے ، وہ اس مالٹے کی طرح ہے، جس کا ذائقہ بھی اچھا ہو اور خوشبودار بھی ہو۔
    اور جو مومن قرآن مجید نہیں پڑھتا اس کی مثال کھجور کی طرح ہے کہ اس کی خوشبو نہیں ہوتی لیکن ذائقہ میٹھا ہوتا ہے۔
    اور قرآن مجید پڑھنے والے منافق کی مثال نیاز بو کی طرح ہے۔ اس کی خوشبو تو ہوتی ہے لیکن اس کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے۔
    قرآن مجید نہ پڑھنے والے منافق کی مثال اندرائن کی طرح ہے ے، اس کی خوشبو بھی نہیں ہوتی اور ذائقہ بھی ترش ہوتا ہے
  • ظلم کی تعبیر تاریکیوں کے ساتھ اور تاریکیوں کی تعبیر ظلم کے ساتھ کی جائے گی۔
  • اسی طرح بخل کی تعبیر خون ریزی سے کی جائے گی ۔ کیونکہ
    آپﷺ کا فرمان ہے کہ
    ظلم کرنے سے بچو ظلم قیامت کے دن تاریکیوں کی شکل میں ہوگا۔
  • بخل سے بچو، بخل نے تم سے پہلے لوگوں کو تباہ و برباد کر دیا تھا۔ اسی کی بنا پر انہوں نے خونریزی کی اور حرام چیزوں کو حلال سمجھ لیا تھا ۔
  • کھجور کی تعبیر مسلمان کے ساتھ کی جائے گی۔ کیونکہ آپ ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا کہ:
    مجھے ایک ایسا درخت بتائیں ، جس کے پتے نہ گرتے ہوں؟ اس درخت کی مثال ایک مومن کی طرح ہے ۔
    ” عبد اللہ بن عمررضی اللہ فرمانے لگے، لوگ جنگل کے مختلف درختوں کے نام لینے لگ گئے ۔ میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور ہے۔ بالآخرصحابہ رضی اللہ نے عرض کیا کہ :
    ” اے اللہ کے رسول ﷺ آپ ہی فرمائیں کہ وہ کون سا درخت ہے آپ ﷺ فرمایا: وہ کھجور کا درخت ہے
  • عطر فروش کی ” اچھے دوست کے ساتھ اور بھٹی جلانے والے کی تعبیر برے دوست” کے ساتھ ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں