اسلام کا سیاسی نظام

ڈاکٹر رضوان اللہ کوکب

اسلام کے سیاسی نظام کی بنیاد تین اصولوں پر رکھی گئی ہے۔
۱:       توحید
۲:       رسالت
۳:       خلافت


توحید
          توحید کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا اور اس کے سب رہنے والوں کا خالق و پروردگار اور مالک ہے۔حکومت و فرماں روائی اسی کی ہے۔وہی حکم دینے اور منع کرنے کا حق رکھتا ہے اور بندگی و اطاعت بلا شرکت غیرے اسی کے لئے ہے ۔ہماری یہ ہستی جس کی بدولت ہم موجود ہیں ہماری جسمانی طاقتیں ،آلات اور ہمارے اختیارات، ان میں سے کوئی چیز بھی نہ ہماری پیدا کردہ ہے نہ حاصل کردہ۔نہ اس کی بخشش میں خُدا کا کوئی شریک ہے اس لئے اپنی قوتوں کا مصرف اور اپنے اختیارات کی حدود متعین کرنا خُدا ہی کا کام ہے۔
          قرآن مجید میں ہے:
ان الحکم الا للہ امرَ الا تعبُدُو اِلا ایاہُ ذَلِکَ الدین القیم۔
          خُدائی کا حق صرف اس خدا کا ہے جس نے ہم کو ان قوتوں اور اختیارات کے ساتھ پیدا کیا ہے۔اور دنیا کی بہت سی چیزیں ہمارے تصرف میں دی ہیں۔توحید کا یہ اصول انسانی حکمیت کی سرے سے نفی کردیتا ہے۔ایک انسان ہو یا ایک خاندان  یا ایک طبقہ یا ایک گروہ یا ایک پوری قوم یا مجموعی طور پر تمام دنیا کے انسان ، حاکمیت کا حق بہر حال کسی کو بھی نہیں پہنچتا ۔حاکم صرف خُدا ہے اور اسی کا حکم “قانون”ہے۔
رسالت
          خدا کا قانون جس ذریعے سے بندوں تک پہنچتا ہے اس کا نام’ رسالت ــ’ہے۔
          قرآن کریم میں ارشاد ہے:
وما ارسلنا من الرسولِ الّا لِیُطاعَ باِذنِ اللہ
ترجمہ:ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اس لئے بھیجا ہے کہ اللہ کے اذن کے تحت اس کی اطاعت کی جائے۔ (النساء۔۶۹)
          رسالت کے ذریعے سے ہمیں درج ذیل چیزیں ملتی ہیں ۔
۱:       کتاب
۲:       سُنت
۳:       شریعت
کتاب:
          کتاب میں خدا نے اپنا قانون بیان کیا ہے۔
اولٰئکَ الّذینَ اَتَینَھُمُ الکِتٰبَ وَ اَلحِکمَۃَ وَ النَبُوَّ ۃَ
ترجمہ:یہ( انبیا )وہ لوگ ہیںجن کو ہم نے اپنی کتاب دی اور حُکم سے سرفراز کیا اور نبوّت عطا کی۔(الانعام ۹۰)
          خدا نے اپنی کتاب قرآن مجید میں وہ تمام اصول بیان کر دیے ہیں جن پر زندگی کا نظام قائم ہونا چاہیئے۔
سنت
          سنت رسول ﷺ نے خدا کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اپنے قول و عمل میں پیش کی ہے۔اور کتاب کی منشاء کے مطابق عملاًایک نظام ِ زندگی بنا کر ،چلا کر اور اس کی ضروری تفصیلات بتا کر ہمارے لئے ایک نمونہ قائم کر دیا ہے۔
ارشاد ہے:
          ان اتّبِع ُ اِلّا ما یُو حٰی اِلیَّ
شریعت
          شریعت ،کتاب اور سنت کے مجموعے کا نام اسلامی اصطلاح میں شریعت ہے اوریہی وہ اساسی دستور ہے جس پر اسلامی ریاست قائم ہوتی ہے۔
خلافت:
          خلافت کا لفظ عربی زبان میں نیابت کے لئے بولا جاتا ہے۔اسلامی نقطہ نظر سے دُنیا میں انسان کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ زمین پر خُدا کا نائب ہے یعنی اس کے ملک میں اس کے دیے ہوئے اختیارات استعمال کرتا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
یقولونَ ھَل لَّنا منَ الاَمرِ مِن شَیء قل اِن الامرالا لللہِ
وہ پوچھتے ہیں کہ اختیارات میں کُچھ ہمارا بھی حصہ ہے؟ کہو کہ اختیارات سارے اللہ کے ہاتھ میں ہیں(آل عمران۔ ۱۵۴)
چار باتیں :
          آپ جب کسی شخص کو اپنی جائیداد کا انتظام سپرد کرتے ہیں تو اس کے پیشِ نظر چار باتیں ہوتی ہیں۔
۱۔ایک یہ کہ جائیداد کے اصل مالک آپ خود ہیں نہ کہ وہ شخص ۔
۲۔دوسری یہ کہ اس شخص کو جائیداد میں آپ کی دی ہوئی ہدایت کے مطابق کام کرنا چاہیئے۔
۳۔تیسری یہ کہ اسے اپنے اختیارات کو ان حدود کے اندر رہ کر استعمال کرنا چاہئے جو آپ نے مقرر کی ہیں۔
۴۔چوتھی یہ کہ آپ کی جائیداد میں اسے آپ کا منشاء پورا کرنا ہوگا نہ کہ اپنا۔
          اگر نائب ان چار شرطوں کا پورا نہ کرے تو وہ نیابت کی حدود سے تجاوز کر گیا اس نے وہ معاہدہ توڑ دیا جو نیابت کے عین مفہوم میں شامل تھا ۔اسی طرح اسلام انسان کو خدا کا خلیفہ قرار دیتا ہے اور اس خلافت کے تصور میں یہی چار شرطیں شامل ہیں۔

اسلامی نظریہ سیاست کسی ایک شخص یا خاندان یا طبقے کو خلافت کا اہل قرار نہیں دیتا بلکہ اس پوری سوسائٹی کو خلافت کا منصب سونپتا ہے جو توحید کی شرطیں اور رسالت کے بنیادی اصول کوتسلیم کر کے نیابت پوری کرنے پر آمادہ ہو ۔ایسی سوسائٹی بحیثیت مجموعی خلافت کی حامل ہے۔یہی وہ نقطہ ہے۔جہاں اسلام میں جمہوریت کی ابتداء ہوتی ہے۔ریاست کا نظم و نسق چلانے کیلئے جو حکومت بنائی جائے گی وہ انہی لوگوں کی مرضی سے بنے گی۔یہی لوگ اپنے اختیارات خلافت کا ایک حصہ انھیںسونپیں گے جو ان کا اعتماد کھو دے گا۔اسے حکومت کے منصب سے ہٹانا پڑے گا۔اس لحاظ سے اسلامی جمہوریت ایک مکمل جمہوریت ہے۔
          جو چیز اسلامی جمہوریت کو مغربی جمہوریت سے جُدا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ مغرب کاسیاسی نظریہ ’’جمہوری حاکمیت‘‘کا قائل ہے اور اسلام ’’جمہوری خلافت‘‘کا۔وہاں اپنی شریعت جمہور آپ بناتے ہیں اور یہاں ان کو اِس شریعت کی پابندی کرنا ہوتی ہے جو خدا نے اپنے رسول کے ذریعے سے دی ہے۔مغربی جمہوریت ایک مطلق العنان خدائی ہے اور اسلامی جمہوریت پابندِ آئین بندگی ہے۔
 اسلامی ریاست کا نقشہ -توحید ،رسالت اور خلافت کی بنیاد پر
۱:امر و نواہی پورا کرے۔
قرآن مجید میں ہے۔
وَ مَن لَم یحکُم بِما اَنزَلَ اللہُ فَاُولٰئِکَ ھُم الکَافِرُون.
ترجمہ:  جو خدا کی نازل کی ہوئی شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کرے وہی دراصل کافر ہے۔ (المائدہ ۔۴۴)
          چاہیئے کہ ان بھلائیوں کو قائم کرے ،فروغ دے اور پروان چڑھائے جن سے خدا وندِ عالم انسانی زندگی کو آراستہ دیکھنا چاہتا ہے۔ان برائیوں کو روکے ،دبائے،اور مٹائے جن کا وجود انسانی زندگی میں خدا کو پسند نہیں ہے۔اسلام میں ریاست کامقصد نہ محض انتظامِ ِملکی ہے اور نہ کسی خاص قوم کی اجتماعی خواہشات کو پورا کرنا بلکہ اس کی بجائے اسلام اس کے سامنے بلند نصب العین رکھ دیتا ہے جس کے حصول میں اس کو اپنے تمام وسائل و ذرائع اور اپنی تمام طاقتیں صرف کرنا چاہئیں۔
          خدا اپنی زمین میں اور اپنے بندوں میں جو پاکیزگی، حسن ،خیر و اصلاح ،ترقی اور فلاح دیکھنا چاہتا ہے وہ رو نما ہو۔بگاڑ کی ان تمام صورتوں کا سدِباب ہو جو خدا کے نزدیک اس کی زمین کو بگاڑنے والی اور اس کے بندوں کی زندگی کو خراب کرنے والی ہیں۔اسلام ہمارے سامنے خیر و شر کی ایک واضح تصویر پیش کرتا ہے۔جس میں مطلوبہ بھلائیوں اور ناپسندیدہ برائیوں کو صاف صاف نمایاں کر دیا گیا ہے۔اس تصویر کو نگاہ میں رکھ کر ہر زمانے اور ہر ماحول میں اسلامی ریاست اپنا اصلاحی پروگرام بنا سکتی ہے۔
          اسلام کا مستقبل یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ میں اخلاقی اصولوں کی پابندی کی جائے۔اس لئے وہ اپنی ریاست کے لئے بھی یہ قطعی پالیسی متعین کر دیتا ہے کہ اس کی سیاست بے لاگ انصاف ،بے لوث سچائی اور کھری ایمان داری پر قائم ہو۔وہ ملکی یا انتظامی یا قومی مصلحتوں کی خاطر جھوٹ،فریب اور بے انصافی کو کسی حال میں گوارا کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔اسلامی ریاست اگرچہ زمین کے کسی حصے میں واقع ہومگر وہ نہ انسانی حقوق کو ایک جغرافیائی حد میں محدود رکھتی ہے نہ شہریت کے حقوق کو۔
          جہاں تک انسانیت کا تعلق ہے اسلام پر انسان کے لئے چند بنیادی حقوق مقرر کرتا ہے۔اور ہر حال میں ان کے احترام کا حکم دیتا ہے۔خواہ وہ انسان اسلامی ریاست کی حدود میں رہتا ہو یا اس سے باہر ،خواہ وست ہو یا دشمن،خواہ صلح رکھتا ہو یا برسرِ جنگ ہو،انسانی خون ہر حالت میں محترم ہے اور حق کے بغیر اسے نہیں بہایا جا سکتا،اسی طرح شہریت کے حقوق بھی اسلام سب مسلمانوں کو دیتا ہے خواہ وہ دنیا کے کسی گوشہ میں پیدا ہوا ہو۔اسلامی ریاست کی حدود میں داخل ہوتے ہی وہ اس کا شہری بن جاتا ہے۔
          غیر مسلموں کیلئے جو کسی ریاست کی حدود میں رہتے ہوں اسلام نے چند حقوق متعین کر دیے ہیں اور وہ لازماًدستورِ انسانی کا جزو ہوں گے۔اسلامی اصطلاح میں ایسے غیر مسلم کو’’ذمی ‘‘کہا جاتا ہے یعنی جس کی حفاظت کا مسلم ریاست نے ذمہ لیا ہو۔ذمی کی جان و مال و آبرو بالکل مسلمان کی جان و مال و آبرو کی طرح محترم ہے۔ذمیوں کو ضمیر و اعتقادا اور مذہبی رسوم و عبادات میں پوری آزادی ہو تی ہے۔
امیر-فرائض و ذمہ داری
          اسلامی ریاست کے انتظا م کی ذمہ داری ایک امیر کے سپرد کی جائے گی جسے صدر جمہوریہ کے مماثل سمجھنا چاہیئے۔امیر کے انتخاب میں ان تمام بالغ مردوں اور عورتوں کو رائے دینے کا حق ہو گا جو دستور کے اصولو ں کو تسلیم کرتے ہوں۔انتخاب کی بنیاد یہ ہو گی کہ روحِ اسلام کی واقفیت ، اسلامی سیرت خدا ترسی اور ردبیر کے اعتبار سے کون شخص سوسائٹی کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کا اعتماد رکھتا ہے۔پھر اس کی مدد کے لئے مجلسِ شوریٰ بنائی جائے گی اور وہ بھی لوگوں کی منتخب کردہ ہوگی۔امیر کے لئے لازم ہو گا کہ ملک کا انتظام اہل شوریٰ کے مشورے سے کرے۔ایک امیر اسی وقت تک حکمران رہ سکتا ہے جب تک اسے لوگوں کا اعتماد حاصل ہو گا۔امیر اور اس کی حکومت پر عام شہریوں کو نقطہ چینی کا پورا حق ہوگا۔اسلامی ریاست میں قانون سازی ان حدود کے اندر ہو گی جو شریعت میں مقرر کی گئی ہیں۔
          خدا اور رسولﷺ کے واضح احکام صرف اطاعت کے لئے ہیں کوئی مجلس قانون ساز ان میںرد و بدل نہیں کر سکتی ۔مجلسِ شوریٰ کی سب کمیٹی ان علماء پر مشتمل ہو گی جو شریعت کا علم رکھتے ہیں۔
          اسلام میں عدالت انتظامی حکومت کے ماتحت نہیں ہے۔بلکہ براہ راست خدا کی نمائندہ اور اس کو جوابدہ ہے۔منصف عدالت کے قانون کے مطابق بے لاگ انصاف کرے گا حتیٰ کہ خود حکومت کے رئیس اعلیٰ کو بھی مدعی یا مدعا علیہ کی حیثیت سے حاضر ہونا پڑے گا جیسے ایک عام شہری کو۔
          افراد اورریاست کے درمیان یا حکومت اور عوام کے درمیان یا مجلس قانون ساز یا حکومت کے درمیان یا حکومت کے مختلف شعبوں اور اجزاء کے درمیان جو نزاع بھی ہو ا س کا فیصلہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کی روشنی میں کیا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں