اسلام کا تعارف

لفظ ‘‘اسلام‘‘ کا معنی عرب لغت کی کتابوں میں یہ ہے:

تابعداری، عاجزی وانکساری، امن وصلح، حق کا اقرار اور فرمانبرداری کرنا، سپرد کردینا, اطاعت کرنا.

لفظ اسلام کا ماخذ ’’امن و صلح‘‘ کے معنوں میں قرآن کریم میں آیا ہے: ’’اور اگر جھکیں وہ صلح (امن) کی طرف تو تم بھی جھک جاؤ اس کی طرف اور بھروسہ کرو اللہ پر۔ بے شک وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے‘‘۔ [الانفال:۶۱]
اسی طرح اسلام کا ماخذ ’’اطاعت‘‘ کے معنوں میں قرآن مجید میں آیا ہے: ’’ اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ اور نہ چلو شیطان کے نقشِ قدم پر بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘۔ [البقرۃ:۲۰۸]

اسلام کا اصطلاحی اور شرعی معنی یہ ہے:

اللہ تعالی اور اس کے رسول پر سچے دل کے ساتھ ایمان لانا۔ اللہ تعالی کے احکامات اور اوامر کو بجالانا اور اس کے نواہی سے اجتناب کرنا۔ اللہ تعالی ہی کے لئے خالص عبادت کرنا اور طریقۂ عبادت خالص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو۔

اسلام کے معنی انقیاد، اطاعت اور تسلیم کے ہیں اور مسلم وہ ہے جو حکم دینے والے کے امر اور منع کرنے والے کے نہی کو بلا اعتراض تسلیم کرے۔ پس یہ نام خود ہی اس حقیقت کا پتہ دے رہا ہے کہ اللہ تعالی اور اس رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو مانا جائے اور اس کے آگے بغیر کسی چوں وچراں کے سر جھکادیا جائے۔ مسلمان کا کام یہ نہیں ہے کہ ہر معاملے میں صرف اپنی عقل کی پیروی کرے‘ نہ یہ ہے کہ احکام الہٰی میں سے جو کچھ اس کے مفادات، اغراض اور خواہشات کے مطابق ہو اس کو مانے اور جو مفادات، اغراض اور خواہشات کے خلاف ہو اس کو رد کردے۔

اسلام اس دین کا نام ہےجسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں ۔اسلام کی تشکیل کرنے والے اجزاء اور اسلامی تعلیمات کی بنیاد قرآن وحدیث ہے۔

دین اسلام کو اسلام اس لئے کہا جاتا ہے کہ رؤے زمین پر جتنے بھی مختلف دین ہیں ان کے نام یا تو کسی خاص شخصیت کی نسبت سے ہیں یا پھر کسی مخصوص امت کی نسبت سے ۔ مثلا : نصرانیہ’’نصاری’’سے لیا گیا، بوذیہ ’’بوذا’’ سے اور زردشتیہ اس لئے معروف اور مشہور ہوا کہ اس کا بانی ’’زرادشت’’ تھا۔ اسی طرح یہودیہ ’’یہودا‘‘ قبیلہ کےدرمیان ظاہر ہوا تو اسے یہودیہ کے نام سے موسوم کردیا گیا۔

جبکہ اسلام نہ تو کسی شخصیت کی طرف منسوب ہے اور نہ ہی کسی مخصوص امت اور قوم کی طرف بلکہ اس کا نام ایک خاص صفت کاحامل ہے جو کہ کلمہ اسلام اپنے اندر سموئے اور ضمن میں لئے ہوئے ہے ۔

اسلام کے معنی سے یہ ظاہر ہے کہ اس دین کی ایجاد وتاسیس میں تو کسی بشر کا دخل ہے اور نہ ہی دوسری امتوں کو چھوڑ کر کسی خاص امت اور قوم کے ساتھ خاص ہے ۔

اسلام کسی قوم اور ذات برادری کا نام نہیں ہے کہ اس میں پیدا ہونے والا ہر آدمی اپنے آپ سے مسلمان ہو اور مسلمان بننے کے لیے اس کو کچھ کرنا نہ پڑے۔ اسلام نام ہے اس دین کا اور اس طریقے پر زندگی گزارنے کا جو اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کی طرف سے لاۓ تھے اور جو قرآن شریف میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں میں بتلایا گيا ہے پس جو کوئی اس دین کو اختیار کرے اور اس طریقے پر چلے وہی اصلی مسلمان ہے۔

دین اسلام کی غرض و غایت اور مقصد یہ ہے کہ دنیا مین بسنے والے تمام لوگ اسلام قبول کرکے سلامتی اور امن وامان میں آجائیں۔ تمام اہل زمین صرف اللہ تعالی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اپنی تمام زندگی اللہ تعالی کی اطاعت وفرمانبرداری کرتے ہوئے گزاریں۔

ان اسلامی صفات کا زیور جو بھی زیب تن کریں گا، چاہے وہ شہری ہو یا دیہاتی، بچہ ہو یا عورت نوجوان ہو یا بوڑھا، وہ مسلمان ہوگا۔

مسلمان ہونے کی سب سے پہلی شرط اسلام کا علم حاصل کرنا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ (دین کا) علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘۔ [حدیث صحیح،مسند بزار:۷۴۷۸]

اسلام کی بنیادی تعلیمات کو جان کر ان کے تقاضوں کو پورا کرنا، ہر مسلمان پر واجب ہے، کیونکہ صرف مسلمان کہلانے سے اسلام نہیں مل جاتا۔

اسلام قبول کرنے کے بعد جب کسی معاملہ میں اللہ اور رسول کا حکم آجائے تو مسلمانوں کے لئے ماننے یا نہ ماننے کا اختیار باقی نہیں رہ جاتا۔

’’اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو یہ حق (حاصل) نہیں کہ جب کسی معاملہ میں اللہ اور اس کا رسول فیصلہ کردے تو ان کے لیے اپنے اس معاملہ میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار باقی رہے۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تو وہ کھلی گمراہی میں گمراہ ہوگیا۔‘‘ [الاحزاب:۳۶]
جو کوئی بھی اسلام کے چند احکامات کو مانتا ہے اور باقی چند احکامات کا علم رکھتے ہوئے چھوڑدیتا ہے تو اس کے لئے دنیا اور آخرت میں رسواکن عذاب ہے۔ اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے:
’’کیا تم کتاب کی بعض باتوں کو مانتے ہو اور بعض کو نہیں مانتے؟ تم میں سے جو کوئی ایسا کرتا ہے اس کی سزا بجز اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ دنیا کی زندگی میں اس کی رسوائی ہو اور آخرت میں ایسے لوگ شدید ترین عذاب کی طرف پھیردئیے جائیں گے۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔‘‘ [البقرہ :۸۵]
اسلام قبول کرنے والے کا ہر فیصلہ صرف قرآن کریم کے مطابق ہونا چاہیئے، خواہ وہ لوگوں کی خواہشات کے مطابق ہو یا نہ ہو۔ اللہ تعالی اپنی کتاب میں فرماتا ہے:
’’تو ان کے درمیان اسی کتاب کے مطابق فیصلہ کر جو اللہ نے اتاری ہے اور جو حق تیرے پاس اللہ کی طرف سے آیا ہے اس کو چھوڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کر۔‘‘[المائدۃ:۴۸]

اسلام بہت آسان، کشادگی اور وسعت سے بھرا ہوا، معتدل اور افراط و تفریط سے پاک دین ہے۔ اس کی تمام تعلیمات خواہ وہ عقائد سے متعلق ہوں یا عبادات سے ، معاملات سے تعلق رکھتی ہوں یا معاشرت سے عدل وانصاف اور میانہ روی پر مبنی ہیں ، نہ ان میں افراط ہے کہ عمل کرنے والا ملال و تنگ دلی کا شکار ہو جائے اور نہ تفریط وجفا ہے کہ صاحب حق کا حق ادا نہ ہو سکے بلکہ ہر میدان میں ایک درمیانی اور معتدل راہ ہے ، قرآن مجید اور احادیث رسول میں اس پر کثیر دلائل موجود ہیں، چنانچہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : یقینا دین آسان ہے اور جو دین میں بے جا سختی کرتا ہے تو دین اس پر غالب آجاتا ہے (دین میں بلا وجہ زیادہ سختی کرنے والا دین میں زیادہ شاخیں اور راستے ہونے کی وجہ سے دین کے تقاضوں پر عمل کرنے سےعاجز رہ جاتا ہے اور کچھ ہی دنوں میں تنگ دل ہو کر پسپائی اختیار کر لیتا ہے ) لہذا تم سیدھے راستے پر رہو ، میانہ روی اختیار کرو اور صبح وشام اور کچھ حصہ رات کو عبادت کرو میانہ روی اختیار کرو منزل مقصود کو پہنچ جاؤ گے ۔ [صحیح البخاری:۶۴۶۳]

اپنا تبصرہ بھیجیں